Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

سقوط ڈھاکہ۔ پاکستان کی تاریخ کا رستا ہوا زخم.....

قوم نے گزشتہ روز 16دسمبر کو وطن عزیز کے دولخت ہونے کا سوگ منایا، 43سال قبل آج ہی کے دن پاکستانیوں نے اپنے وطن کو دو حصوں میں تقسیم ہوتے دیکھا تھا۔ یوم سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن اور رستا ہوا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر پائے گا۔ بلاشبہ اس دن کا سورج ہمیں شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس دلاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے اور تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرتا نظر آتا ہے۔ 

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بھارت نے کبھی بھی پاکستان کے وجود کو سچے دل سے تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ اس موقع کی تلاش میں رہا کہ کسی طرح پاکستان کو تقسیم کردے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا یہ بیان کہ ’’آج ہم نے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے کر پاکستان کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔‘‘ اُن کے دل میں مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف چھپی نفرت کی عکاسی کرتا ہے۔ اندرا گاندھی نجی محفلوں میں اکثر یہ بھی کہا کرتی تھیں کہ ’’میری زندگی کا حسین ترین لمحہ وہ تھا جب میں نے پاکستان کو دولخت کرکے بنگلہ دیش بنایا۔‘‘ اندرا گاندھی کے حوالے سے امریکہ کے سابق سیکریٹری خارجہ ہنری کسنجر نے بھی اپنی کتاب میں یہ انکشاف کیا ہے کہ اندرا گاندھی سقوط ڈھاکہ کے فوراًبعد مغربی پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں مگر عالمی طاقتوں کی ناراضگی اور ناسازگار حالات کے باعث وہ ایسا کرنے سے باز رہیں۔

یہ حقیقت بھی سب پر عیاں ہے کہ بھارت کی مداخلت کے بغیر پاکستان دولخت نہیں ہوسکتا تھا لیکن بھارت کی مداخلت کے لئے سازگار حالات ہمارے حکمرانوں نے خود پیدا کئے۔ہم بھارت پر یہ الزام کیوں عائد کریں کہ اُس نے یہ مذموم کھیل کھیلا، دشمن کا کام ہی دشمنی ہوتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمراں دشمن کی دشمنی کے آگے بند باندھنے کے بجائے دشمن کو ایندھن فراہم کرتے رہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اقلیت ملک توڑنے کا سبب بنتی ہے اور علیحدہ وطن کے لئے کوشاں رہتی ہےکیونکہ وہ اکثریت سے متنفر ہوتی ہے لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ اکثریت نے اقلیت سے الگ ہونے کی جدوجہد کی۔ مشرقی پاکستان کی آبادی جو ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی، میں اس احساس محرومی نے جنم لیا کہ وسائل کی تقسیم میں اُن سے ناانصافی اور معاشی استحصال کیا جارہا ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ مشرقی پاکستان میں سرکاری اداروں میں خدمات انجام دینے والوں میں سے اکثریت کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا جو بنگالی زبان سے بھی ناآشنا تھے۔

پاکستان کو دولخت کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے ملک سے زیادہ پارٹی یا ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور  مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی پارٹی کے ارکان کو شریک نہ ہونے کی ہدایت کی جبکہ جنرل یحییٰ خان اور مجیب الرحمٰن کی ڈھاکہ میں ہونے والی ملاقات بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی کیونکہ یحییٰ خان عدم مفاہمت کی صورتحال سے فائدہ اٹھاکراپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے۔بے یقینی کی ایسی صورتحال میں اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کا ملک دشمنوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئےمشرقی پاکستان کے لوگوںکو علیحدہ وطن کا جواز مہیا کیا جس کا اظہار انہوں نے 23 مارچ 1971ء کو’’یوم پاکستان‘‘ کے بجائے ’’یوم سیاہ‘‘ مناکر اور سرکاری عمارتوں پر بنگلہ دیشی پرچم لہرا کر کیا جس کے بعد فوج نے باغیوں سے نمٹنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا۔ اس صورتحال کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور فوج کے خلاف بنگالیوں کے قتل عام اور انسانیت سوز مظالم ڈھانے جیسےمنفی پروپیگنڈے شروع کردیئے۔ یہ حقیقت بھی سب جانتے ہیں کہ بھارتی پارلیمنٹ نے 71ء کی جنگ سے بہت پہلے مشرقی پاکستان کے علیحدگی پسندوں کی تنظیم مکتی باہنی کی مدد کے لئے ایک قرارداد منظور کی تھی جبکہ بھارتی فوج مکتی باہنی کے شدت پسندوں کو ٹریننگ، ہتھیار اور مدد فراہم کرنے میں پیش پیش رہی۔مکتی باہنی کے ان باغیوں نے 71ء کی جنگ سے قبل ہی پاک فوج کے خلاف اپنی گوریلا کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا اور3 دسمبر 1971ء کو جب پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوا تو ان باغیوں جن کی تعداد تقریباً 2 لاکھ بتائی جاتی ہے، نے بھارتی فوج کا بھرپور ساتھ دیا۔ حمود الرحمٰن کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان میں موجود ڈیڑھ کروڑہندو وہاں انتشار پھیلانے میں سرگرم ہوگئے تھے۔

دنیا کی کوئی بھی فوج اپنے ہی عوام سے کبھی جنگ نہیں جیت سکتی، یہی کچھ مشرقی پاکستان میں ہوا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بھارتی فوج اور عوامی لیگ کا یہ پروپیگنڈہ کہ پاک فوج نے مشرقی پاکستان میں 30 لاکھ سے زائد شہریوں کو قتل کیا، درست نہیں کیونکہ حمود الرحمٰن کمیشن کے مطابق ان ہلاکتوں کی اصل تعداد 26 ہزار ہے جو مکتی باہنی کے علیحدگی پسند تھے اور انہی علیحدگی پسندوں نے پاکستان کی حمایت کرنے والے لاکھوں بے گناہوں کا قتل عام کیا تھا۔

بھارت کا یہ پروپیگنڈہ کہ پاکستانی جنگی قیدیوں کی تعداد 90 ہزار فوجیوں پر مشتمل تھی، درست نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوجیوں کی مجموعی تعداد تقریباً 34 ہزار تھی اور پولیس، پیرا ملٹری اور سرکاری ملازمین کو ملاکر یہ تعداد 90 ہزار بنتی تھی۔ آج انہی قیدیوں کے حوالے سے ایک واقعہ قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ان قیدیوں کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اور شیخ مجیب الرحمٰن کے درمیان ایک خفیہ منصوبے پر اتفاق ہوا جس کے تحت بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد بھارت نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرانے کے لئے 1972ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کی۔ بھارت کی جانب سے پیش کی گئی اس قرارداد کو سلامتی کونسل کے بیشتر ارکان کی حمایت حاصل تھی اور قوی امکان تھا کہ یہ قرارداد منظور ہوجاتی اور بنگلہ دیش اقوام متحدہ کا رکن بننے کے بعد آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرتا جس کے بعد بھارت ان 90 ہزار قیدیوں کو بنگلہ دیش کے حوالے کردیتا اور پھر بنگلہ دیش ان قیدیوں پر اغواء، قتل، زنا اور جنگی جرائم کے مقدمات چلاکر انہیں سرعام پھانسی پر لٹکاتا جس کا مقصد قیدیوں میں شامل سینئر فوجی افسران و اہلکاروں کی تذلیل کرنا تھا لیکن ایسی مشکل صورتحال میں سلامتی کونسل کے رکن ملک چین نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا اور بھارتی قرارداد کو ویٹو کرکے بھارت کی گھنائونی سازش کو ناکام بنادیا جس کے بعد یہ قیدی بھارت کیلئے بوجھ بن گئے اور اس طرح کسی شرائط کے بغیر ان فوجیوں اور سویلین کی واپسی ممکن ہوئی تاہم بعد میں لاہور میں منعقدہ اسلامی کانفرنس کے موقع پر پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا۔

سانحہ مشرقی پاکستان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عدم مفاہمت اور دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام نہ کرنا ملک کو دولخت کرنے کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان کو دولخت کرنے میں بھٹو، یحییٰ اور مجیب، سب نے اپنا کردار بخوبی ادا کیا لیکن شکست درحقیقت صرف اور صرف ملک و قوم کے حصے میں آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا پولینڈ اور دیگر ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی جنگ بندی کی قرارداد کو طیش میں آکر پھاڑنا اور اجلاس کا واک آئوٹ کرنا سمجھ سے بالاتر تھا کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو یہ امید کی جارہی تھی کہ چین اور دیگر عالمی طاقتوں کے دبائو میں آکر اقوام متحدہ کچھ ہی دنوں میں جنگ بندی کے احکامات جاری کردیتی تاہم قرارداد پھاڑنے کے 2 دن بعد ہی جنرل نیازی نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈال دیئے اور اس طرح پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ پاکستان کی تاریخ کے اس سیاہ باب کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج پاکستان ایک بار پھر اسی طرح کے حالات سے دوچار ہے اور دشمن طاقتیں ایک بار پھر پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بن رہی ہیں لیکن ایسے کڑے وقت میں حکمران اور سیاستدان اقتدار اور ذاتی مفادات کی جنگ میں مصروف عمل ہیں جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں ملکی سلامتی کی کوئی پرواء نہیں۔ افسوس کہ ہم نے سقوط ڈھاکہ سے اب تک کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔

اشتیاق بیگ
"بہ شکریہ روزنامہ ’’جنگ

Post a Comment

0 Comments